احساس سودوزیاں




ہم کل ہی کراچی جانے کی باتیں کر رہے تھے اس پر اچھی خاصی بحث ہورہی تھی ٹرین سے جائیں یا جہاز سے میرا سارا زور جہاز پر تھا ایک گھنٹہ چالیس منٹ میں کراچی کوئی برا آپشن نہیں تھا خیرمعاملہ ایسے ختم ہوگیا کہ جہاز سے اترنے کے بعد آپکو تین دن قرنطینہ میں گزرنے ہیں اور جہاز بھی چھوٹا ہے جگہ ملے نہ ملے۔ عقلمندی کا تقاضا یہی تھا ٹرین کی سواری کی جائے۔
کراچی تو جانا ہی تھا جیسے بھی جاتے ... ٹرین کی سیٹ کراکر سفرکی تیاری شروع کردی ۔۔۔ یہی بات ذھن میں تھی کہیں ٹرینیں پھر سے بند نہ ہوجائیں ...امی سب سے الوداعی ملاقاتیں کر رہی تھیں انکے فون بھی مسلسل آرہے تھے۔ امی نے ایک کال پر کہا
"کیا ؟؟؟ کیسے ؟؟؟ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ‎ "
میرا تو سانس ہی رک گیا کہ شاید ٹرینیں کرونا کی وجہ سے معطل ہوگئیں کیونکہ کیسز بہت بڑھ گئے تھے۔ انہوں نے اشارے سے کہا ٹی وی کھولو ...
میں نے بیتابی سے پوچھا امی ہوا کیا ہے ؟؟؟... "ٹی وی کھولو" انہوں نے وہی جواب دیا۔
"ٹی وی پورے مہینے سے بند ہے کیا کھلے گا " میں نے کیبل کی تار کو بچارگی سے دیکھا
"امی کیا ٹرینیں بند ہوگئی ہیں؟ میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا
"جہاز گر گیا ہے۔۔۔ دیکھو"
"کہاں؟؟؟" میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔میں نے جلدی سے نیٹ پر سرچ کیا تو میرے ہاتھ پیر ہی پھول گئے
"پی آئی اے کا جہاز ائیرپورٹ کے قریب گر کر تباہ"
ابھی صرف طیارے کا غم تھا ۔۔۔
یوٹیوب پر لائیو نیوز چلادیں
"ماڈل کالونی" کا نام سن کر پیروں کے نیچے سے زمیں نکل گئی۔ میں نے سارے گھروالوں کے نمبر ملانے شروع کردیۓ ...کوئی فون ہی نہیں اٹھا رہا تھا ... میں نے بہن کو فون ملایا جوکہ حادثے کی جگہ سے تھوڑی دور رہتی ہے ۔ اس نے فون تھا لیا اور بتایا کہ گھر سے ذرا دور یہ واقعہ پیش آیا ہے ہمارا گھر محفوظ ہے۔ دل کو ذرا اطمينان ہوا کہ گھر میں سب خیریت ہے ... لیکن جہاز جس گلی میں گرا تھا اس میں میری سہیلیاں رہتی تھیں۔ لبابہ اور میں نے انکی خیریت معلوم کرنے کیلئے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ... مگر وہ بے سود رہی .. انکے تمام گھر والوں کو کال کی لیکن کوئی جواب نہیں آیا ... اب صرف خبروں پر ہی انحصار تھا۔ ایک سہیلی کا گھر تو صحیح حالت میں نظر آگیا۔ باقی کی کوئی خبر نہیں تھی۔ دل رو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بھائی کا فون بھی آگیا۔ وہ شدید غمگین تھا میں نے اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنی شروع کردیں تاکہ اسکی اداسی کچھ کم ہوسکے پوچھا
"گرمی کیسی ہے؟" جواب ملا
" شدید گرمی ہے ... آگ کی وجہ سے اور بڑھ گئی ہے... اوپر سے لائٹ بھی نہیں ہے ... اور فیول کی بو پورے علاقے میں پھیلی ہی ہے سانس بھی لینا مشکل ہورہا ہے۔"
اس سے بات کرکے ابو حالات بتانے لگے انکا تبصرہ ایوی اشن کے حوالے سے تھا۔ میں نے انکو پائلیٹ کی کنٹرول ٹاور سے آخری پیغام کے بارے میں بتایا تو جواب ملا
" راؤنڈ لیکر آنے سے فیول ضائع ہوجاتا اور آگ نہیں لگتی"
" ابو پوری گلی تباہ ہوگئی ہے۔" میں نے انکی معلومات میں اضافہ کیا۔
" ظاہر سی بات ہے۔ اتنا بڑا جہاز تھا۔"
" ابو آپکو کیا لگتا ہے کتنے لوگ مرے گے؟" میں نے ایک اور سوال داغ دیا۔ انکا جواب تھا
" دیکھو کیا ہوتا ہے۔"
" ابو جہاز نیچے تھا۔ لوگوں کو بچنا چاہئے ۔" شاید میں اپنی تسلی کرنا چاہتی تھی۔ شاید میں لاشعوری طور پر اپنے آپ کو یہ یقین دلانا چاہتی تھی کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔اللہ کرے سب بچ جائیں لیکن وسوسوں اور خدشات سے بھر رہا تھا۔
" اللہ تعالیٰ بہتر کرے۔" انکا جواب میرے لۓبالکل تسلی بخش نہ تھا۔
دل کےحالات عجیب تھے کراچی جانے کی خوشی خاک ہوگئی تھی۔ اس وقت میں بہت سارے مختلف کرداروں میں ڈھل گئی تھی 
میں ایک مسافر تھی ... انکی خوشی محسوس کر سکتی تھی جو اس جہاز میں تھی ... کبھی سوچتی کہ انکو جب کراچی کی زمیں نظر آرہی ہوگی تو انکے کیا جذبات ہونگے  ...میں سمجھ سکتی تھی بہت سے ایسے ہونگے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو مہینے بعد اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہونگے کچھ اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے جارہے ہونگے۔انکے کیا کیا ارمان ہونگے۔
میں ان گھروالوں کے حالات بھی سمجھ سکتی تھی  جن کے  گھر تباہ ہوئے تھے کیوں کہ میں اسی علاقے کی رہنے والی تھی۔ کیسی تیاریاں چل رہی ہونگی عید کی .. رگڑ رگڑ صفائیاں ہورہی ہونگی ... عید کے مینیو تیار کئے جارہے ہونگے .... اور پھر کیا ہوا....
میں انکے بھی جذبات سمجھ سکتی ہوں جو نماز پڑھنے اپنے خوب صورت گھر اور اپنے پیارے چھوڑ کر گئے لیکن واپسی میں انکو کھنڈر اور گھر کے لاپتہ افراد ملے۔

میں "پی کے 8803 "کے کیبن کیرو (فضائی عملہ) جذبات بھی جانتی ہوں کیوں کہ میں پی آئی اے فیملی سے ہوں کہ کتنی بہادری انہوں نے موت کو گلے لگایا ہوگا۔ موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی کپتان نے مسافروں کو تسلی دی ہوگی
  "حالات کنٹرول میں ہیں۔ ہم إن شاءالله تھوڑی دیر میں جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈنگ کررہے ہیں۔"  
عملہ اپنی پروفیشنل ذمہ داری نبھاتے ہوئے مسافروں کا خوف دور کرنے کیلئے انکو مسکرا مسکرا کر تسلیاں دے رہے ہورہا۔ گھر میں وہ بھی اپنے بچوں سے کیا کیا وعدے کرکے آے ہونگے۔ 
"بس شام تک آجاؤں گا پھر شاپنگ پر چلیں گے۔"
" امی بس آج کے تو دن فلائٹ ہے بس پھر عید بعد ہوگی ڈیوٹی..." وغیرہ وغیرہ 
ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ خبروں میں نشر ہونے لگا" جہاز کا ایک پرزہ خراب تھا اس وجہ سے جہاز گرا پی آئی اے انجینئرنگ کا قصور ہے۔"
پھر ایک چینل سے صدا بلند ہوئی۔
" طیارہ لاہور سے ہی فنی خرابی کا شکار تھا۔"
شام تک سارا قصور پائلٹ کا ہوچکا تھا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھی جس شخص نے لوگوں کی جان بچانے کیلئے اپنی جان دیدی .... اسکو کیا رنگ دیا جارہا ہے۔
رات تک پرندے کی شامت آچکی تھی کہ وہ انجن سے ٹکراۓ اور جہاز کریش ہوا۔
کچھ لوگ پی آئی اے کو لعنت ملامت کر رہے تھے۔ اس ایئر لائن کو بند کردو۔قاتل ایئر لائن .... وغیرہ وغیرہ
عین عید کے موقعے پر یہ اندوہناک حادثہ .. پیاروں کی جدائی .. لواحقین کے غم اور لوگوں کی باتیں ذرا سوچۓ۔۔ کوئی تسلی والی بات کیجے ... غمزدہ لوگوں کو صبر کی تلقین کیجیے ۔۔۔ قبل ازوقت مفروضات پر باتیں کرنے کے بجاۓ تحقیقات کے نتائج کا انتظار کیجیے۔ پہاڑوں جیسا غم ہے اللہ صبر جمیل عطا فرماے۔ اللہ دل پر تسلی کا ہاتھ رکھے۔ اللہ آپ سب کا سہارا بنے۔اللہ تعالیٰ شہداء درجات بلند کرے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے خصوص پی آئی اے کیرو (جہاز کا عملہ) جوکہ آخری وقت تک اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتا رہا مسافروں کی تالیف قلب کرتا رہا۔ یا اللہ مغفرت کے اس مبارک مہینے میں ان سب کو بخش دے۔ اور ان پر اور ہم سب پر رحم فرما۔

حمنہ عزیز  #حدیث_دل

Comments